DARUL HIKMATUL KHALIDIYYA

title_m

  اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا انسانی قابلیت پر مقدم ہے۔ یعنی محض قابلیت کی وجہ سے عطا نہیں ہوتا بلکہ عطا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کو اس امر میں کچھ مانع نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت کریمہ یہ ہے کہ وہ عطا اور قابلیت کے ان دو دریاؤں کو متوازی چلاتا ہے۔

مثلاً نبوت تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہب (عطا) کی جاتی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ موسٰی علیہ السلام اپنی پیدائش کے بعد لکڑی کے ڈبے میں سمندر میں پھینکے گئے۔ پھر فرعون کے محل میں شہزادوں کی طرح پلے بڑھے لیکن بعد میں بھا گ کر مدین پہنچے اور پھر اس شہزادے کو دس سال تک بکریاں چرانی پڑیں۔ اس مشقت کے بعد انہوں نے کوہ طور کے پاس آگ دیکھی (یعنی اپنے دل میں نور کا ظہور دیکھا) اور پھر نبوت کے بعد بھی مسلسل محنت اور مشقت تھی۔

یوسف علیہ السلام کنویں میں ڈالےگئے۔ قافلے والوں کے ہاتھ لگے، مصر کے بازار میں بکے، غلام بن کے رہے، قید میں رکھے گئے۔پھر اس ساری مشقت کے بعد ہی وہ عزیز مصر بنے۔

ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے، چھوٹی عمر میں والدہ چل بسی۔  دادا کے پاس رہے وہ بھی انتقال کر گئے ۔پھر چچا کی زیر کفالت رہے وہ بھی اس دنیا سے چلے گئے۔ بکریاں چرائیں، تجارت کی، غار حرا کی خلوت میں ریاضت کی، پھر نبوت کے بعد مسلسل محنت، کوشش، تکلیف اور جہاد کے مراحل سے گذرے۔

مولانا روم ؒ کو چھ برس کی عمر اپنے والد گرامی شیخ بہاالدین کے ساتھ بلخ سے ہجرت کرنا پڑی- وہ کئی ملکوں سے ہوتے ہوئے قونیہ پہنچے۔ وہ طویل عرصہ تک اپنے والد گرامی کے مرید شیخ برہان الدین محقق کی شاگردی میں رہے اور علم ومعرفت کے بیشتر مضامین ان سے پڑھے۔ والد گرامی کی وفات کے بعد شام چلے گئے اور مزید علم و عرفان کے مراحل طے کیے ۔ وہ علم و معرفت اور عبادت و ریاضت کے ان طویل مراحل کے بعد ہی ایک بڑے ولی اور صوفی کے درجے تک پہنچے۔ ایسے میں وہ مشہور واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے شمس تبریزؒ سے ملاقات کی – ان کی اس ملاقات اور اس ملاقات کے بعد ان کے مثنوی شریف اور دیوان شمش تبریز کے ضخیم کلام کو انکی پچھلی زندگی کی علم و معرفت کی جدو جہد سے جدا کر کے کیسے دیکھا جا سکتا ۔

 اوپر بیان کئے گئے اصولوں کی روشنی میں آج بھی ہمارے وہ احباب جو علم وعرفان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جنہیں جسم کے علاوہ روح کی طرف بھی رغبت ہے۔ جو اس دنیا کی زندگی کے علاوہ آخرت پر ایمان اور اس کی طلب رکھتے ہیں۔ وہ اگر فکرِ معاش کے ساتھ ساتھ علم، عرفان، عبادت، ریاضت ، خدمت اور اعلٰی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت انہیں ایک خاص وقت پر ولائت کے سمندروں سے ان کے مقصود یا قوت و مرجان عطا کرتا ہے

ملک محمد عثمان

Share

Our Visitors

004176

Other Articles

تصوف، محنت اور مشقت

  اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا انسانی قابلیت پر مقدم ہے۔ یعنی محض قابلیت کی وجہ سے عطا نہیں ہوتا

Read More »

کوہِ موروث

یہ پانچ ہزار قبل مسیح کاواقعہ ہے یعنی عیسٰی روح اللہ کی آمد سے پانچ ہزار سال پہلے کا ۔ امکان خان اور اس کی

Read More »

جسم سے روح تک (Jism se Ruh Tak

جسم  سے  روح  تک حکایات عثمانی- مثنوی معنوی – الانسان الکامل بيدار خان کی سائيکل  (حکایات عثمانی) بيدار خان کو اس کے والدین نے سائيکل

Read More »