DARUL HIKMATUL KHALIDIYYA

title_m

یہ پانچ ہزار قبل مسیح کاواقعہ ہے یعنی عیسٰی روح اللہ کی آمد سے پانچ ہزار سال پہلے کا ۔ امکان خان اور اس کی زوجہ استعداد بی بی ملک نیستاں کے مشرق میں کوہِ موروث کے وسیع پہاڑی سلسلے کی ایک غار میں گذر بسر کر رہے تھے۔

جب سورج طلوع ہوتا تو تھوڑی دیر کے لیے روشنی غار کے منہ پر پڑتی ۔ اس کے بعد سارا دن اور رات غار کے اندر اندھیرا ہی رہتا۔ البتہ رات کے وقت حسب ضرورت لکڑیاں جلا کر غار کے اندر روشنی کا اہتمام کر لیا جاتا۔

میاں بیوی دن کے وقت کم ہی غار کے اندر ٹھہرتے تھے ۔ وہ دوسرے قبیلے والوں کے ساتھ مل کر جنگل میں پھل ڈھونڈتے، شکار کرتے اور لکڑیاں اکھٹی کرتے تھے۔ یوں ہی صبح سے شام ہوتی اور پھر شام سے صبح ہو جاتی۔ گرمی، سردی ، بہار اور خزاں آتے جاتے اور زندگی آگے بڑھتی رہتی۔

پچھلی کچھ راتوں سے امکان خان کو اس غار کے اندر گھٹن محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اسے غار کی چھت کے اوپر کھڑے بہت بڑےپہاڑ سے خوف محسوس ہو نے لگا تھا۔اسے خیال آتا کہ پہاڑ اگر ہلکا سا بھی سرکا تو وہ اور اس کی بیوی اس غار میں پچک کے رہ جائیں گے۔ غار کی دیواروں اور فرش پر موجود سوراخوں نے بھی اسے خوف زدہ کر رکھاتھا۔ اپنی زندگی میں ان سوراخوں سے نکلنے والے کئی زہریلے کیڑے اس نے خود اپنے ہاتھوں سے مارے تھے۔ امکان خان نے اپنی بیوی استعداد بی بی سے کئی مرتبہ اس خوف کا ذکر کیا لیکن ان دونوں کے پاس اس بڑی مشکل سے کلنے کا کوئی رستہ نہیں تھا۔ دراصل کوہ موروث کی یہ غار دن کے وقت انہیں موسم کی شدت سے جبکہ رات کے وقت جنگلی درندوں سے محفوظ رکھتی تھی۔

ایک رات یونہی غار میں سوتے وقت امکان خان نے خواب میں دیکھا کہ وہ اس پہاڑ کے مقابل ندی کنارے ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنا رہا ہے۔ خواب کے مناظرخوب گہرے تھے اور جاگنے کے بعد اسے ہو بہو یاد تھے۔ اس نے اپنی زوجہ استعداد بی بی کو یہ خواب سنایا اور دونوں نے اتفاق کیا کہ وہ اس خواب کے مطابق اپنے لیے ایک جھونپڑی ضرور تعمیر کریں گے۔

انہوں نے درختوں کے تنوں سے ستون اور شہتیر کاٹے۔ چھوٹی چھوٹی لکڑیوں سے دیواریں اور چھت بنائی۔ جنگلی گھاس سے چھت کو واٹر پروف کیا۔ ایک دیوار میں دروازہ رکھا۔ یوں ایک ماہ کے عرصے میں کوہ موروث کے مقابل ندی کے کنارے ان کی اپنی جھونپڑی تیار تھی۔

آج چاند کی چودھویں تاریخ تھی۔ دونوں میاں بیوں جھونپڑی کے دروازے سے باہر آئے تو چاند کی روشنی میں کوہ موروث ان کے سامنے صاف نظر آرہا تھا۔ امکان خان نے ایک نظر جھونپڑی پر ڈالی اور پھر کوہِ موروث کی طرف دیکھا۔ اگرچہ اس کی جھونپڑی کافی چھوٹی اور کوہ موروث بہت بڑا تھا لیکن اس کے دل میں گہرا اطمینان تھا کیونکہ وہ کوہ موروث کے غلبے سے محفوظ ہو چکا تھا۔ دونوں میاں بیوی کو چاند کی مسحورکن روشنی میں خود کو کوہ موروث کے مقابل کھڑا دیکھ کر اچھا لگ رہا تھا۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے اور سونے کی تیاری میں لگ گئے۔

آج رات امکان خان کے دل ودماغ میں کوئی خوف نہیں تھا اسلیے وہ گہری نیند سو گیا۔ رات کو اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ اور اس کی بیوی استنبول میں باسفورس کے کنارے ایک انتہائی خوبصورت بنگلے کے سرسبز لان میں بیٹھے ہیں۔ صبح اٹھ کر اس نے فورا اپنی بیوی کو یہ خواب سنایا۔ اگرچہ پانچ ہزار سال قبل مسیح میں ان کا دیکھا جانے والا یہ خواب اپنی تعبیر سے ابھی کوسوں دور تھا لیکن وہ دونوں میاں بیوی اس وژن کے ساتھ اپنے قبیلے کے باقی افراد دسے ممتاز درجے کے حامل ہو گئے تھے ۔ وہ سب کے ساتھ رہتے ہوئے بھی سب سے جدا ہو گئے تھے۔

ملک محمد عثمان

Share

Our Visitors

004173

Other Articles

تصوف، محنت اور مشقت

  اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا انسانی قابلیت پر مقدم ہے۔ یعنی محض قابلیت کی وجہ سے عطا نہیں ہوتا

Read More »

کوہِ موروث

یہ پانچ ہزار قبل مسیح کاواقعہ ہے یعنی عیسٰی روح اللہ کی آمد سے پانچ ہزار سال پہلے کا ۔ امکان خان اور اس کی

Read More »

جسم سے روح تک (Jism se Ruh Tak

جسم  سے  روح  تک حکایات عثمانی- مثنوی معنوی – الانسان الکامل بيدار خان کی سائيکل  (حکایات عثمانی) بيدار خان کو اس کے والدین نے سائيکل

Read More »