DARUL HIKMATUL KHALIDIYYA

title_m

جسم  سے  روح  تک

حکایات عثمانی- مثنوی معنوی – الانسان الکامل

بيدار خان کی سائيکل  (حکایات عثمانی)

بيدار خان کو اس کے والدین نے سائيکل لے کر دی۔ وہ ابھی چھوٹا تھا  اورسائيکل چلانے پر پوری طرح قادر نہ تھا۔ وہ سائيکل  چلا تے ہوے اپنا توازن برقرار نہ رکھ  پاتا اور اس کوشش میں کئی بار زمین پر آ گرتا۔

رفتہ رفتہ وہ بڑا ہو گیا اور اس نے سیٹ پر بیٹھ کر پورے توازن کے ساتھ    سائيکل چلانا  سیکھ لی۔ اب  سائيکل اس کے مکمل کنٹرول میں تھی اور وہ جب اور جیسے چاہتا اسے لیے پھرتا۔ ایک دن اس نے سا ئيکل کے ہینڈل  سے ایک ہاتھ چھوڑ کر دیکھا اور کچھ عرصہ بعد دونوں ہاتھ چھوڑ کر بھی سائيکل چلائی-

کبھی کبھی وہ زور سے پیڈل مار کر دونوں پاؤں اٹھا لیتا اور دونوں ہاتھ بھی  چھوڑ دیتا۔ ایسے میں اسے لگتا کہ وہ سا ئيکل سے آزاد ہو کر بھی سفر کر سکتا ہے۔

اس نے اپنے ایک دوست کو بتایا کہ وہ چاہتا ہے کہ ایک دن وہ  يوں ہی سا ئيکل چلاتے ہوئے اپنے دونوں پاؤں اور دونوں ہاتھ اٹھائے  اور سا ئيکل سے آزاد ہوتے ہوئے ہوا میں اڑنا شروع کر دے۔ اس کے دوست نےاسے بتایا کہ ایسا تو ممکن نہیں اور اگر وہ ایسا کرے گا تو گر کر زخمی ہو جائے گا۔

بیدار خان اسی کو شش میں لگا رہا اور کئی بار گر کے زخمی بھی ہوا لیکن ان زخموں نے اس کا شوق مزید گہرا ہی کيا۔

اسی کوشش میں پھر ایک خوشگوار صبح کو وہ سا ئيکل لے کر نکلا۔ يہ ايک سیدھی سڑک تھی جس کے دونوں طرف ہریالی تھی۔ اس نے زور سے پیڈل گھما   کر دونوں پاؤں اٹھا لیے اور ساتھ ہی دونوں ہاتھوں کوبھی  ہینڈل سے اٹھا کر ہوا میں بلند کر دیا۔ اس نے خود کو اوپر کی طرف حرکت دی اور آنکھیں بند کر لیں۔ عین اسی لمحے اس کے ہاتھ کسی آسمانی قوت نے تھام لیے۔ سا ئيکل لڑکھڑاتی ہوئی سڑک کے پاس کھائی میں جا گری اور بیدار خان ہوا میں بلند ہو گيا۔

مجنوں اور اونٹنی ( استکمال نفس شرح مثنوی مولانا    رومی   ؒ)

عقل کا نفس سے یا جسم کا روح سے مقابلہ ایساہی ہے  جیسا کہ مجنوں کا  اُوٹنی کے ساتھ جھگڑا ۔ مجنوں کا میلان  اپنی لیلٰی کی طرف اور اُونٹنی کا میلان  پیچھے گاؤں میں اپنے بچے کی طرف ۔ اس پر مجنوں نے کہا  کہ میری اُونٹنی کا میلان  پیچھے کی طرف اور میرا میلان  آگے کی طرف ہے  اور اسی طرح ہم دونوں مختلف ہیں۔ کبھی اُونٹنی غالب آتی اور کبھی مجنوں، مجنوں آگے کی طرف کھچتا ہے اور اُونٹنی پیچھے کی طرف  ۔مجنوں لیلٰی کی طرف  جانے کی خواہش رکھتا ہے  اور آگے کی طرف بڑھتا ہے  لیکن اُونٹنی کی خواہش  پیچھے گاؤں میں چھوڑے ہوئے  بچے کی طرف ہے ۔ اگر مجنوں تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ۔ تو اونٹنی رستے سے واپس  پیچھے کی طرف مُڑ جاتی ۔ چونکہ مجنوں کے تَن بدن میں  عشق سمایا ہوا تھا  ۔ ایسے میں  اس کا اپنے آپ سے غافل ہو جانا  ایک معمول کی بات تھی ۔ اصل میں تو عقل ہی آدمی کی حفاظت کرتی ہے ۔  لیکن مجنوں کی عقل تو لیلٰی لے اڑی تھی ۔

لیکن و ہ اُونٹنی بہت چُست و چالاک تھی ۔ اسے کوئی  مجنوں جیسا عشق کا معرکہ  پیش نہیں تھا ۔ وہ جونہی محسوس کرتی کہ اس کی مہار  ڈھیلی ہو گئی ہے ۔ وہ سمجھ جاتی کے مجنوں اس لمحے غافل ہے  اوروہ فوراً پیچھے کی طرف پلٹ جاتی ۔ مجنوں جب ہوش میں آتا تو  دیکھتا  کہ اُونٹنی تو میلوں پیچھے چلی گئی ہے ۔  یوں یہ تین دنوں کا رستہ مجنوں سے  سالوں میں بھی طے نہ ہوا۔ مجنوں نے اُونٹنی سے کہا کہ اے اُونٹنی ہم دونوں عاشق ہیں  ۔ میں لیلٰی کا اور تو اپنے پیچھے گاؤں میں چھوڑے  ہوئےبچے کی ۔ لیکن ہم دونو ں کا میلان متضاد ہے ۔ تو پیچھے کی طرف جانا چاہتی ہے  اور میں آگے کی طرف ۔ اے اُونٹنی تیرا             اور میرا ساتھ  اب زیادہ چل نہیں سکتا ۔ اب مجھے تُجھ سے دوری ہی اختیار کرنی چاہیے۔ اس طرح متضاد طرفوں میں کھینچے والا  ساتھی کب موزوں ہوتا ہے  ۔ اس حکایت میں اُونٹنی سے مراد جسم ہے  اور مجنوں سے مُراد روح ہے ۔ انسان کی روح  عرشِ معلی کی جدائی میں بے تا ب ہے  اور واپسی کے سفر کی متمنی ہے ۔جب کہ جسم اُونٹنی کی طرح گھاس پھونس  کے عشق میں ہے ۔ روح اُوپر کی طرف بازو کھولتی ہے  جب کہ جسم نے مٹی میں پنچے گاڑھے ہوئے ہیں ۔ اے اُونٹنی جب تک تو میرے ساتھ رہے گی ۔ میری لیلٰی مجھ سے دور ہی رہے گی ۔

آگے پیچھے کی کشش کے احوال میں میری عمر گزر گئی ۔ ایسے ہی جیسے حضرت موسیٰ کی قوم  برسوں تک میدانِ  تیہ میں پڑ ی رہی تھی ۔ وہ میدان جس میں وہ سالوں چکر کاٹتے رہے  اور جہاں سے صبح چلتے شام کو وہی پہنچ جاتے- اے  اُونٹنی یہ وصال تو بس دو قدم کا رستہ  تھا- جبکہ میں تیرے مکر کی وجہ سے  ساٹھ سال تک  رستے میں ہی بھٹکتا رہا  مجھے بہت دیر ہو گئی  اور  میں اس سواری سے اب  تنگ آ گیا ہوں-مجنوں  نے اپنے آپ کو اونٹنی سے گرا دیا  -وہ غم سے جل رہا تھا ۔ وہ اس وسیع جنگل میں  تنگی محسوس کر رہا تھا  ـاس نے اتنے زور سے  اپنے آپ کو پتھریلی زمین پر گرایا  کہ تقدیر سے اس کا پاؤں بھی ٹوٹ گیا۔ مجنوں  نے پیر باندھا اور کہا میں گیند بن جاؤں گا  اور عشق کے بلے کے خم میں لڑھکتا ہوا لیلٰی کے پاس پہنچ جاؤں گا ۔

اللہ تعالٰی کا عشق  لیلٰی کے عشق سے  کب کم ہوتا ہے  ۔ اس لئے گیند بن جانا  بہتر ہے  ۔ گیند بن جانا چاہیے  اور سچائی کے پہلو پر  لڑھکتے لڑھکتے  بلّے کے مُڑے ہوئے منہ کے ساتھ  سفر کرنا چاہیے کیونکہ اب یہ سفر خدا  کی کشش سے ہو گا  جبکہ وہ اونٹنی والا سفر  ہماری اپنی ناقص رفتار سے تھا  – یہ جو عام کشش ہے  وہ اس خاص  خدائی کشش کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ وہ کشش  جس کو رسول پاک ؐ کے فضل نے  ہمارے لیے قائم کیا ہے ۔ اے راہِ حق کے مسافر تیرے لئے سلامتی ہو –

اس حکا یت میں   اونٹنی سے مُراد   جسم ہے  جو واپس اپنی پیدائش کی جگہ   یعنی مٹی کی طرف کشش رکھتا ہے ۔ مجنوں سے مُراد ایک روحانی مزاج کا آدمی ہے جو اپنی لیلٰی یعنی تقرب الٰہی کی طرف  پورے ذوق شوق  اور تڑپ کے ساتھ بڑھ رہا ہے  ۔ اونٹنی کے مسلسل   پیچھے گاؤ ں میں اپنے بچے کی طرف رحجان  اور مجنوں کے آگے لیلٰی کی طرف رحجان کی کشمکش  سے تنگ  آکر  مجنوں کے اپنے آپ کو  زور سے نیچے گِرا کر پاؤ ں توڑ لینے سے مُراد مجنوں کا اس بات کا   ادراک  کرنا ہے  کہ یہ معاملہ جسمانی تلذذ  اورمحض ذاتی کاوش سے سر ہونے والا نہیں ہے ۔ کیوں نہ پاؤں توڑ کر اسے گیند کی طرح باندھ  لیا جائے- یوں اپنے  عشق کو  عجز اور تضرع کا پانی دیا جائے  اور باقی سفر اس  گیند کی طرح طے کیا جائے  جو عشق الہی کی ہاکی کے منہ کے ساتھ   لگا ہوـ یوں اللہ تعالی کی مدد اور رسولﷺ کا فضل  کھینچ کر اسے گول کی طرف لے جائے ۔

دجال اور مہدی   (الانسان الکامل از شیخ   عبدالکریم الجیلیؒ ؒؒؒؒ ؒؒؒؒؒؒؒؒؒؒ ؒؒ)

ایسے ہی انسان کے اندر قیامتِ صُغریٰ  کی نشانیوں میں سے  ایک نشانی خروج دجال ہے  ۔ یہ دجال نفسِ  مدجلہ ہے  جو انسان کی حقیقت سے باہر آتا ہے  یہ کُفر کو حق کی طرح بنا کر  انسان کو حق کی جگہ پیش کرتا ہے  ۔ جیسا کے کہا جاتا ہے  کے فلاں نے فلاں کے ساتھ دجل کیا  یعنی اس کے لئے معاملہ مشکوک کر دیا  اور غلط راہ پر ڈال دیا۔

اسی نفسِ دجالہ کو  بعض وجو ہات کی بنا پر  انسا ن کا شیطان بھی کہتے ہیں ۔ یہ ہی شیطان  وسواس ، مردود اور خناس کا محل ہے  اور بعض وجوہات کی بنا پر اسے نفسِ  امارہ  یعنی برائی کی طرف حکم دینے والا نفس بھی کہتے ہیں ۔

صوفیا جب عموماً لفظ نفس استعمال کرتے ہیں  تو اس سے ان کی مراد آدمی کے اندر پڑی صفات کا  ذکر کرنا مقصود ہو تا ہے ۔ پس یہ نفس دجا ل کی طرح ہے  اور اس کے شہوانی تقاضے  اس کی جنت کی طرح ہیں  جو اس کے بائیں ہاتھ میں ہیں  اور یہ بد بخت لوگو ں کا رستہ ہے   ۔اس کے برعکس دوسرا راستہ  عادی طبعیی امور کو تر ک کرنا ،  رکنے والے امور سے رکنا اور قطع کرنے والے امور کو قطع کرنا  ہے ـ   یہ آگ کی طرح ہے جو دجال کے دائیں ہاتھ میں ہے اور یہ اہل ِ سعادت کا رستہ ہے ۔ امور ِ نفسانی  کا ظلمانی حجاب کو گہرا تر کر دینا ایسا ہی ہے  جیسے دجال کی دونو ں آنکھو ں کے درمیان  کافر لکھا ہونا ۔

ایک عارف بھی جب دجال کے زیرِ اثر ہوگا  تو اس سے حقیقت چھُپ جائے گی ۔ اور اس دجالی غلبے کی وجہ سے امور الہیہ کے مفہوم بھول جائے گا ، یہی مراد ہے اس بات سے کہ لوگ دجال کے دور میں بھوکے اور پیاسے ہونگے۔

دجال کا قہر خاص لوگوں پر زیادہ ہوگا ۔ حتٰی کے ایک عارف بھی اس دور میں اپنی ضروریات  سے عہدہ برآ نہیں ہوگا یہ اس طرح ہے  کہ لوگوں کو دجال کے علاوہ  کہیں کھانے پینے  کو نہیں ملے گا ۔ نبی پاک ؐ   نےایک حدیث میں فرمایا ہے  جو اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے  “لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا  کہ دین پر چلنا ایسا ہو گا  جیسے مُٹھی میں انگارے پکڑے ہوں”     جو ایسے وقت میں  مجاہدہ کرنے سے بھاگ کر  نفس کی خواہشات ، بشری طبعی امور ، شہوانی لذات  اور  عام

 دنیا وی اعمال  کی طرف راغب رہا  وہ نعوذ باللہ ایسا ہی ہے  جس نے دجال سے کھایا پیا-

ایک عارف کے لئے بعض مباحات بھی شراب کی طرح حرام ہیں اور اگر کوئی عارف مباحات میں  ہی رک جائے تو گویا یہ ایسےہی ہے کہ دجال  اپنے کھانے میں سے کھلائے-  اپنے نفس کی غفلت اور خواہشات میں انہماک اس شراب کی طرح ہے  جو دجال لعین اپنے پاس سے پلائے -اگر کوئی عارف اپنے  عرفانی بلاغت پر پہنچنے سے پہلے ان  مباحات  اور خواہشات کی طرف  مُڑ جائے تو  وہ گویا ایسےہی ہے  کہ کبھی فلاح نہیں پائے گا۔

پھر دنیاوی زینتوں کا دھوکا ، جن کا باقی رہنا محال ہے اور جن کی لذتیں محض خیال ہیں  یہ ایسےہی ہیں کہ کوئی

 دجا ل کی  جنت میں داخل ہو  اور پھر اللہ تعالٰی اسے آگ میں بدل دے گا۔  اور ایسے آدمی کا ٹھکانہ دوزخ ہو جائیگا۔

اور جو کوئی اللہ تعالٰی کی توفیق سے حق کے رستے پر  ثابت قدم ہوا ، تحقیق کے ساتھ شریعت کے پر انوار  رستوں پر چلا نفس کی مخالفت ، مجاہدے اور ریاضتیں کی اور رحمان کے ظہور کی مٹی   کی گھاس کھا کر گزارا کیا  وہ ایسا ہے  کہ دجال کی آگ میں داخل ہوا اور اللہ تعالٰی نے اس آگ کو ایسی نعمتوں سے بدل دیا جنہیں زوال نہیں  اور ایسے ملک میں جیسے  کبھی کوئی عدم استحکام نہیں ۔

اور یہ دجال  اللہ تعالٰی  کے امر پورا ہونے تک  ساری زمین میں گھومتا ہے ۔ سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے  اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کا نفس  اسے ہر مقام پر گمراہ کرتا ہے  سوائے دو مقام کے  ، ایک مقام اصطلام ذاتی ہے  جہاں انسان اپنے وجود سے سے غائب ہو کر ذاتِ الٰہی کی حاضرت میں  آجاتاہے-  وہ اپنے حواس سے نکل آتا ہے  اپنے نفس کو فنا کر دیتا ہے ۔ اسے مقام سکر بھی کہتے ہیں ۔ اور دوسرا مقام، مقامِ محمدی  ہے جسے صوفیاکی اصطلاح میں صحوثانی بھی کہتے ہیں  ان دو مقامات پرنفس کی گمراہ کرنے کی مجال نہیں ۔ اس لئے کہ ان دہ مقامات کو ہر قسم کی گمراہی  سے محفوظ کر دیا گیا ہے ۔ یہ ازلی طور پر  محفوظ ہیں اس لئے ان دو مقامات کو ان شہروں سے تشبہہ دی گئی ہے جہاں دجال کا داخلہ ممنوع ہے۔

دجال بندے کے حاصل ہونے والے کشف و اسرار الٰہی میں التباس پیدا کرتا ہے اور  سیدھے رستے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیتا ہے- یہ معاملہ اس دجال یعنی خناس کا بیت المقدس کی طرف بڑھنا ہے پھر اس  کا اس منزل  پر پہنچنے سے پہلے ہی مقام رملہ پر رک جانا ہے ۔

نفس کا دجال عارف پر ہر لباس میں مقام نفس کے مقابلے میں ظاہر ہوتا ہے ۔ ایسے میں جس آدمی کو پوری معرفت نہیں ہوتی وہ یہ خیال کرتا ہے کہ دجال (اس کے قلب کی ) وادی اقدس تک پہنچ جائے گا۔ لیکن  اصل میں دجال کو اس مقام تک پہنچنے کی طاقت حاصل نہیں ۔ پھر وہ بغیر حجاب کے (نفس کے مقام پر) اپنی حد میں ظاہر ہوتا ہے ، جو رملہ کا مقام  یعنی مٹی یا ریت ہے ، پھر عیسٰیؑ اپنے  ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے ظاہر ہوتے ہیں اور اسے اس جگہ قتل کر دیتے ہیں ۔

عیسیٰ ؑ مالک الملک  اللہ کی روح ہیں ۔ جب حق آ جاتا ہے تو باطل چلا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی  ابلیس کی  دھوکہ دہی اور دجالی کا خاتمہ ہو جاتا ہے-

Share

Our Visitors

004173

Other Articles

تصوف، محنت اور مشقت

  اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا انسانی قابلیت پر مقدم ہے۔ یعنی محض قابلیت کی وجہ سے عطا نہیں ہوتا

Read More »

کوہِ موروث

یہ پانچ ہزار قبل مسیح کاواقعہ ہے یعنی عیسٰی روح اللہ کی آمد سے پانچ ہزار سال پہلے کا ۔ امکان خان اور اس کی

Read More »

جسم سے روح تک (Jism se Ruh Tak

جسم  سے  روح  تک حکایات عثمانی- مثنوی معنوی – الانسان الکامل بيدار خان کی سائيکل  (حکایات عثمانی) بيدار خان کو اس کے والدین نے سائيکل

Read More »