-متن حکایت
خودستان ایک ریاست ہے جس میں حکومت نے خبردار کر رکھا ہے کہ گھروں کے نقشے ایک خاص طرز پر ہوں گے۔ جن گھروں کی کنسٹرکشن منظور شدہ نقشے کے مطابق نہیں ہو گی ان گھروں کو نمپلیشن سرٹیفکیٹ نہیں دیا جائے گا۔
ایک گھر کے لیے معیاری نقشہ کیا ہونا چاہیے اس پر بہت بحث ہوئی اور پھر کافی سوچ بچار کے بعد ایک بنیادی نقشہ بنایا گیا۔ یہ نقشہ ریاست کے تمام گھروں کے لیے بطور ریفرنس استعمال ہوگا۔اس نقشے میں لازمی قرار دیا گیا کہ گھر کے پچھلے کمروں اور داخلی گیٹ کے درمیان ایک خاص فاصلہ ہونا چاہیے۔ داخلی گیٹ ایک کشادہ صحن میں کھلے گا۔ اندر آنے والا کوئی بھی شخص پہلے صحن میں داخل ہو گا، پھر صحن عبور کر کے کمروں کے آگے بنے برآمدہ تک پہنچے گا اورپھر برآمدے سے گزر کر پچھلے کمروں کے دروازے تک آئے گا۔یوں پچھلے کمرے تک پہنچنے کے لیے چار رکاوٹیں تھیں۔ داخلی گیٹ، کشادہ صحن، برآمدہ اور پچھلے کمرے کا دروازہ۔ ان تمام مدارج سے گزر کر ہی کوئی شخص پچھلے کمرے تک پہنچ سکے گا۔
ریاست خودستان کے تمام لوگوں نے اس نقشے کو خوب سراہا کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ نقشہ ان کو گھر میں داخل ہونے والی کسی ناگہانی چیز سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ داخلی گیٹ اور پچھلے کمرے کے درمیان والی رکاوٹیں ان کے لیے فاصلے کا اہتمام کرتی تھیں اور یہ فاصلہ سکون کا باعث تھا۔
-شرح حکایت
اس حکایت میں خودستان سے مراد انسانی شخصیت ہے – خودستان کی ریاست سے مراد خودی یا انسانی شخصیت کو بڑا اور منظم دیکھنا ہے ۔ انسانی شخصیت اگر سکڑ جائے تو وہ ایک بہت معمولی چیز بن جاتی ہے اور اگر پھیل جائے تو ایک ریاست کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس کی ترقی کا دائرہ انتہائی وسیع ہو جاتا ہے –
اس حکایت میں ہم نے گھر یعنی انسانی شخصیت کے سٹرکچر میں داخلی دروزہ ، صحن، برآمدہ اور پھر پچھلا کمرہ دکھایا۔ سب سے پچھلے کمرے سے ہماری مراد انسانی شخصیت کا مرکزی شعوری کنٹرول ہے – داخلی دروازہ اور اس کے بعد جومراحل ہیں جیسےصحن ، برآمدہ اور پھر پچھلا دروازہ یہ سب مراحل وہ جبلی، نفسیاتی اور ذہنی محرکات ہیں جنہیں مرکزی شعور کے تابع ہونا چاہیے-
انسانی شعور دماغ پر مقدم ہو -انسانی ذہن میں داخل ہونے والا حسی ڈیٹا اورجسمانی جبلتوں کے محرکات شعور کو براہ راست متاثر نہ کریں- بلکہ ان کے اوپر چیکس ہوں جیسے داخلی گیٹ – ایک جبلی رحجان داخلی گیٹ سے اجازت لے کر داخل ہو تو پھر اُسے صحن عبور کرنا ہے پھر پچھلے برآمدے میں آنا ہے اور پھر پچھلے کمرے کےدروازے سے اجازت نامہ چاہیے تب جا کر وہ شعور تک پہنچ سکتا ہے -یوں اگر انسان اپنی شعوری زندگی کو منظم کر لے تو بے شمار جبلی رحجانات اور ذہنی اور نفسیاتی مسائل پر قابو پا سکتا ہے-
جب انسان کی شعوری زندگی مضبوط ہوتی ہے تو وہ ایک خاص قسم کے سکون میں داخل ہوتا ہے – اگر انسان اپنے دماغ کے جواسکو چلا رہا ہوتا ہے کے تابع ہو جائے تو بے شمار پریشانیوں کا شکار ہو جاتا ہے اور ہر طرح کی سوچیں اُس کو لیے پھرتی ہیں- اس کی بجائے اگر وہ اپنی اصلی شعور ذات کو مستحکم کرے اور اپنے شعور پہ کھڑے ہو کر مائنڈ اور جبلتوں کا مقابلہ کرے تو باقی سب مخلوق سے ممتاز ہوجاتا ہے-
اس عمل کو آپ تزکیہ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی صفات مذمومہ اوربری عادات سب ایک نچلے لیول کے جبلی اور دماغی محرکات ہیں- تزکیہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی شعور کو ایسے ترتیب دینا چاہئے کہ ہم اپنے جسم کی خواہشات اور نفسیاتی دباؤ سے بالا تر ہوں -جس کو ہم تزکیہ نفس کہتے وہ بھی جبلی تقاضوں اور جینیاتی حصار سے مقابلہ کرنے کا نام ہے – جب بندہ اپنی شعوری ذات کو مستحکم کرتا ہے تو اس کو اپنی جینیاتی اور ماحولیاتی زندگی کے ساتھ رہنے کا سلیقہ بھی آتا ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان کو اس کاوراثتی جینیاتی ڈیٹا اور ماحولیاتی اثرات اپنی مرضی سے جہاں چائےبہالے جائیں۔
جسے ہم تصوف میں عشق حقیقی کہتے ہیں وہ بھی در اصل شعور کے اعلی مراتب پر کھڑے ہونا ہے۔ مولانا رومؒ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں-
“ہر کرا از عشق جامہ چاک شد
او ز حرص و عیب کلی پاک شد”
جس کسی کا عشق نے جامہ چاک کر دیا ،کپڑے پھاڑ دیے یعنی وہ عشق حقیقی میں مبتلا ہو گیا تووہ ہر طرح کے عیب سے پاک ہو گیا ۔ عشق حقیقی بھی آدمی کو اس کے نچلے درجے کی خواہشات ، جذبات اور نفسیات پہ غلبہ نصیب کرتا ہے -جب کوئی عشق حقیقی میں مبتلا ہوتا ہے وہ نچلے درجے کے سارے تقاضے چھوڑ کے اوپر کی طرف پرواز کرتا ہے- یہ عشق اسے اس کے رب سے جوڑ دیتا ہے اور پھر درمیان میں کسی سفلی حقیقت کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی-
شرح حکایات عثمانی – حکایت نمبر-3
ملک محمد عثمان
16 اکتوبر 2022




