DARUL HIKMATUL KHALIDIYYA

title_m

-متن

ایک بھینس کے سر پر دو نوکیلے سینگ تھے۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ سینگ کاہے کو سر پہ سجا رکھے ہیں۔ بھینس نے کہا میرے سر میں سرمایہ ہے اور یہ سینگ اس سرمائےکی حفاظت کرتے ہیں۔

یہ سن کر پوچھنے والے نے کہا تیرا اصل سرمایہ تو دودھ ہے جو روزانہ تمہارے تھنوں سے نکال لیا جاتا ہے اور تو خاموش کھڑی رہتی ہے۔

-شرح حکایت 

بھینس کو اس بات پر فخر ہے کہ اس کے سر پر سینگ ہیں اور سر کے اندر دماغ ہی اس کا اصل سرمایہ ہے- ایک آدمی اسے توجہ دلاتا ہے کہ تمھارےتھنوں سے ہر روز دودھ دھو لیا جاتا ہے جس کی تجھےفکر نہیں – بس سر پر سینگ سجا رکھے ہیں تا کہ سر کا سرمایہ ضائع نہ ہو جائے- تمہارااصل سرمایہ تو وہ دودھ ہے جو دھو لیا جاتاہے اور اسے بچانے کے لیے تم کچھ بھی نہیں کر پاتی

سر کے اندر سرمایے سے ہماری مراد آدمی کی انفرادی ذہنی استعداد  اور آسمانی ہدایت سے کٹا ہوا  تعقل ہے- ذہن  یا تعقل  کوئی بری چیز نہیں ہے لیکن جب انسان اپنی عقل، ذہن اور دلیل پر ضد کرے اور اسے آسمانی حقائق کے مقابلے میں لا  کھڑا کرے تو وہ ایک بری چیز بن جاتی ہے –

 اس کے مقابلے میں دودھ سے مراد حقائق کا خالص علم ہے جو وحی سے اور پھر دوسرے درجے میں وحی کی متابعت میں قلب کے راستے سے حاصل ہوتا ہے- ہم جوقلب کے راستے کی بات کرتے ہیں وہ بھی ایک قسم کی عقل ہے لیکن اس عقل کی بنیاد فقط ظاہری حواس پر  نہیں ۔

ایک آدمی کی انفرادی عقل کائنات کی پوری حقیقت کے مقابلے میں ہمیشہ تھوڑی اور نا مکمل ہوتی ہے -ہم یہ چیز سائنسی طور پر بھی سمجھتے ہیں کہ ہماری اس زمینی دنیا کا پوری کائنات کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں حتی کہ اس سولر سسٹم کا بھی اس کائنات  کے ساتھ جس میں لاکھوں ستارے ہیں کوئی موازنہ نہیں – ایسے ہی انسان کا ذہن اور اس کی انا کا حصاراس کائنات کے مقابلے میں حد درجہ چھوٹے اور حقیر ہیں-

سینگ  پہ فخر کرنادر اصل  اپنی عقلی استعداد  پر حد درجہ اسرار کرنا ہے- یہ اسرار آہستہ آہستہ قلب کی طرف جانے والے رستے بلاک کرنا  شروع کر دیتا ہے-اگر میں ماڈرن سائنس سےمثال دوں تو جیسے ایک آدمی  کوموٹاپا ہے تو اس کے اندر انسولین ریزسٹینس پیدا ہو جاتی ہے۔

 یعنی اس کا لبلبہ تو انسولین بنا رہا ہے لیکن اس کے باڈی سیلز انسولین کو جذب نہیں کر سکتے – ایسے ہی انسان کا قلب ہے اس کو بدستور سگنل دے رہا ہوتا ہے لیکن ایک کم درجے کا تعقل ، انا کی تنگی اور جبلتوں کا غلبہ اُن سینگوں کی طرح ریزسٹینس پیدا کرتا ہے جس سے وہ آدمی قلب کے سگنل وصول نہیں کر سکتا – اگر لبلبہ بدستور انسولین بناتا رہے اور سیلز چربی کی وجہ سے انسولین ریزیسٹینس پہ برقرار رہیں تو پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ انسولین بنا تے بناتے پنکریاز کام کرنا چھوڑ دیتا ہے- بعینہ جب ایک انسان کو اس کا قلب سگنل دیتا رہتا ہے اور اگر وہ اس سے مسلسل غافل رہے تو پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ قلب سگنل دینا بند کر دیتا ہے – سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے۔

ختم اللہ علیٰ قلوبھم(سورۃ بقرہ آیت نمبر 7)

کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں پر مہر لگا دی ہے- یعنی وہ لوگ کافی عرصے تک ایسے اعمال میں رہے  کہ ان کا ضمیر ان کو ملامت کرتا رہا- وہ ضمیر کی آواز کو  مسلسل نظر اندازکرتے رہے اور بالاخریوں ہوا کہ ان کے دلوں پر مہر لگ گئی –

 اللہ تعالیٰ  سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب کو زندہ کرے اور ہمیں قلوب کی جہت سے حقائق کا وہ علم عطاء کرے جس سے ہماری ارواح بلندی کی طرف بڑھنا شروع کر دیں ۔

شرح حکایات عثمانی – حکایت نمبر-9

ملک محمد عثمان

04نومبر2022

Share

Our Visitors

004176

Other Articles

تصوف، محنت اور مشقت

  اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا انسانی قابلیت پر مقدم ہے۔ یعنی محض قابلیت کی وجہ سے عطا نہیں ہوتا

Read More »

کوہِ موروث

یہ پانچ ہزار قبل مسیح کاواقعہ ہے یعنی عیسٰی روح اللہ کی آمد سے پانچ ہزار سال پہلے کا ۔ امکان خان اور اس کی

Read More »

جسم سے روح تک (Jism se Ruh Tak

جسم  سے  روح  تک حکایات عثمانی- مثنوی معنوی – الانسان الکامل بيدار خان کی سائيکل  (حکایات عثمانی) بيدار خان کو اس کے والدین نے سائيکل

Read More »