DARUL HIKMATUL KHALIDIYYA

title_m

 الجیزہ میں ابوالہول کے مجسمے سے شمال کی طرف ٹھیک پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک صحرائی گاؤں کی درمیانی گلی میں ایک غریب کسان کا گھر تھا۔ یہ ایک معمولی سا گھر تھا جس میں دو کمروں کے آگےایک چھوٹا سا صحن اور داخلی دروازے کے ساتھ ایک چھوٹی سی ڈیوڑی تھی۔

یہ دیہاتی معمولی سا کاشتکار تھا۔ اپنے حصے کی زمین میں گندم اور کچھ سبزیاں اگا کر اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ وہ اور اس کی بیوی عام سا لباس پہنتے اور بچے گاؤں کے ایک سکول میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔

دیہاتی کو کچھ دنوں سے محسوس ہوتا تھا کہ ان کے کمرے کا فرش ایک جانب سے آواز کرتا ہے۔ جب وہ کمرے کے فرش کو اوپر سے کٹھکٹاتے تو یو ں لگتا کہ وہ اندر سے کھوکھلا ہے۔ وہ دونوں میاں بیوی اس امر سے کچھ عرصے سے واقف تھےلیکن وہ دن بھر کھیتوں میں کام کرنے میں مشغول رہتے اور انہیں اس کھوکھلے فرش کی تحقیق کی فرصت ہی نہ ملتی۔

پھر ایک دن دیہاتی نے اس فرش کو توڑنے کا ارادہ کیا۔ اس نے ایک بڑے کدال سے فرش پر زور سے ضرب لگا کر اسے توڑ دیا۔ اسے فرش کے نیچے خلا دکھائی دیا۔ وہ مزید کھدائی کرتا رہا۔ کچھ نیچے جانے کے بعد اسے لگا کہ فرش کی تہ میں کچھ مدفون ہے۔ اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ کُھدائی میں ہاتھ بٹا رہی تھی ۔ جب فرش کے نیچے رستہ بن گیا تو اس نے اپنا ہاتھ اندر گہرائی میں ڈالا۔ اس نے مٹھی بھر کر اندر سے کچھ نکالا تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس کی مٹھی میں ہیرے اور جواہرات تھے جو اس کمرے فرش کی تہہ میں مدفون تھے اسے ایک بہت بڑا خزانہ ہاتھ آگیا تھا۔

کچھ ہی دنوں میں یہ خاندان متمول ہو گیا۔ میاں بیوی خوش لباس ہو گئے اور بچوں نے شہر کے بڑے سکول میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔ کھانے پینے کے اسباب کی بھی بہتات ہوگئی۔لوگ انہیں دیکھ کر رشک کرتے تھے۔

اس دیہاتی نے سوچا کہ کیوں نہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی بتائے کہ وہ اپنے کمروں کے فرشوں کو توڑ کر ان میں چھپے ہوئے خزانے نکال سکتے ہیں اور یہ کوشش ان کے لیے انتہائی فائدہ مند ہو گی۔ یوں ان دونوں میاں بیوی نے دوسرے لوگوں کی رہنمائی کرنا شروع کر دی۔ وہ ان کے گھروں میں وہ مقام تلاش کرتے جس کے نیچے خلا محسوس ہوتا ۔ پھر وہ انہیں فرش توڑنے کے اوزار فراہم کرتے۔ یوں اس گاؤں کے بہت سے لوگ اپنے گھروں میں مدفون خزانوں تک پہنچے اور ان خزانوں سے فائدہ اٹھانے والے بن گئے۔

اشارہ: روح کا خزانہ جسم کا فرش توڑ کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اور آسمانی صحیفوں کے الفاظ کی تہہ میں خزانے مدفون ہوتے ہیں جن تک پہنچنے کے بعد عرفان کی منازل طے ہوتی ہیں۔

                                                                           ملک محمد عثمان

Share

Our Visitors

004176

Other Articles

تصوف، محنت اور مشقت

  اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا انسانی قابلیت پر مقدم ہے۔ یعنی محض قابلیت کی وجہ سے عطا نہیں ہوتا

Read More »

کوہِ موروث

یہ پانچ ہزار قبل مسیح کاواقعہ ہے یعنی عیسٰی روح اللہ کی آمد سے پانچ ہزار سال پہلے کا ۔ امکان خان اور اس کی

Read More »

جسم سے روح تک (Jism se Ruh Tak

جسم  سے  روح  تک حکایات عثمانی- مثنوی معنوی – الانسان الکامل بيدار خان کی سائيکل  (حکایات عثمانی) بيدار خان کو اس کے والدین نے سائيکل

Read More »